Orhan

Add To collaction

لکھ پھر سے تو نصیب میرا

لکھ پھر سے تو نصیب میرا
از سیدہ
قسط نمبر9

مجھے معاف کردیں ڈیڈ ماما مجھے نہیں پتا تھا وه چلی ہی جائے گی۔۔۔۔میں معافی  مانگتا ہوں معاف کردیں خدا کا واسطہ وه اپنے ماں باپ کے آگے انکے پیر پکڑ کر معافی مانگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
سکینہ اس سے بولیں چلے جائے میری بچی کو گئے مہینہ ہوگیا۔۔۔۔۔اس کی وجہ سے اس منحوس اولاد کی وجہ  سے اس نے مجھے میرے بھائی کے سامنے شرمندہ کردیا۔۔۔۔۔شایان صاحب نے صفوان  پہ غصہ ہوتے ہوۓ  کہا 
میرا کلیجہ چیر دیا تم نے صفوان مجھے اندازہ نہیں تھا میری اولاد اپنی حوس کے لئے ایک یتم کی زندگی برباد کردے گی سکینہ کو سچ پتا چل گیا تھا۔۔۔۔۔۔
ماما مجھے معاف کردیں وه گڑ گڑا رہا تھا 
ارے نا مرد  ہم سے کیا معافی مانگتا ہے جس کو برباد کیا ہے اس سے مانگ معافی۔۔۔۔۔۔سکینہ میں اسے ماردو جان سے اسے کہیں دفع ہو جائے میری نظروں سے۔۔۔۔۔۔۔شایان صاحب بلکول بے بس ہوگے تھے 
صفوان چلے جاؤ خدا کا واسطہ ہے۔۔۔۔۔سکینہ نے ہاتھ جوڑتے ہوۓ کہا 
وه اٹھ کر باہر آگیا۔۔۔۔۔۔مرے قدموں سے چلتے ہوۓ اپنے کمرے میں آیا۔۔۔۔۔
نمل!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!وه پوری طاقت سے چیخ۔۔۔۔میں نے کیا کردیا یہ اپنے ہاتھوں سے ہی سب برباد کردیا۔۔۔۔۔۔کیا کردیا میں نے۔۔۔۔وه اپنے بالوں کو نوچ رہا تھا اور پھوٹ پھوٹ کے رو رہا تھا وه پچھلے ایک مہینے سے اسے ہر جگہ تلاش کر چکا تھا لیکن وه جیسے زمین کے سینے میں جا چھپی تھی
اَللّهُ!!!!!!!اَللّهُ!!!!!اَللّهُ۔۔۔۔۔جب صفوان کی رگیں درد سے پہٹنے لگی تو اس نے اپنے رب کو پکارنا شروع کیا اور جب انسان کا درد بڑھ جاتا ہے تو وه اپنے رب کو ہی پکارتا ہے۔۔۔۔وه تو بہت رحمن ہے وه سب کی سنتا ہے۔۔۔۔۔
میں مر جاؤنگا میری مدد کر مالک۔۔۔۔۔۔۔وه چیخ رہا تھا دروازے کے باہر کھڑی حمنہ کا دل بھائی کے درد پہ پھٹا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔یا اَللّهُ یا تو میرے بھائی کو صبر دے دیں یا تو اپنی طرف بولالے۔۔۔۔اور شاید وہی وقت قبولیت کا تھا یا فرشتوں نے ایک بہن کی بھائی کے لئے کی جانے والی دعا پہ امین کہا تھا۔۔۔۔۔۔
_____________
نمل کو گئے ایک سال ہونے کو تھا۔۔۔۔صفوان بے چین ہی تھا اتنے وقت سے۔۔۔۔۔وه پچھلے ایک مہینے سے مسجد کے باہر آتا لیکن اندر نہیں جاتا تھا وه ابھی بھی باہر کھڑا تھا۔۔۔۔۔فجر کا وقت تھا۔۔۔۔
ارے نوجوان میں تمھیں روز یہاں دیکھتا ہوں اگر تم اندر نہیں آتے بات کیا ہے۔۔۔۔ایک انکل جو روز صفوان کو دیکھتے تھے آج اس سے پوچھ ہی لیا 
ہمت نہیں ہوتی یہاں سے آگے جانے کی صفوان نے نظریں جھکا کر جواب دیا 
ارے لڑکے جس اَللّهُ نے یہاں تک آنے کی ہمت دی ہے تو کیا وه اندر آنے کی ہمت نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔اندر آجاؤ بیٹا 
لیکن چچا میں بہت گناہگار ہوں۔۔۔۔۔۔صفوان نے ندامت سے کہا 
ارے لڑکے یہاں کہیں لکھا ہے کیا کے گناہگار کا اندر آنا مانا ہے۔۔۔۔۔۔۔بیٹا ہم سب گناہگار ہیں آجاؤ اندر 
انہوں نے صفوان کا ہاتھ پکڑا اور اسے ساتھ اندر لے آے صفوان کبھی کبھی پڑھتا تھا نماز لیکن آج جب وه نماز کے لئے کھڑا ہوا تو ایک الگ احساس ہو رہا تھا نماز سے فارغ ہو کر اس نے دعا کے لئے اٹھاے تو اَللّهُ کے آگے روتا ہی چلا گیا وه باآواز ہچکیوں کے ساتھ رو رہا تھا لوگ آگے بڑھے اسے اٹھانے کے لئے تو امام صاحب نے یہ کہہ کر مانا کردیا کے 
اَللّهُ کا گھوم ہوا بندا واپس اپنے اَللّهُ کے پاس آگیا ہے رونے دو اسے جتنے آنسوں بہیں گے اتنے ہی اسکے گناہ دھولیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
____________
الہٰی آج سالوں بعد اسکے گھر کے دروازے پہ کھڑا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وه اندر جائے یا نہیں۔۔۔۔اس نے واپسی کا سوچا جیسی وه پلٹا دروازہ کھولا۔۔۔۔۔
کیسا مہمان  ہے میزبان سے ملے بنا ہی واپس جا رہا ہے تبھی اسکے کانوں میں شفع کی آواز آئی۔۔۔۔
اس نے پلاٹ کر دیکھا تو وه تو کوئی الگ ہی انسان تھا چہرے پہ نبی کی سنت شلوار قمیز میں وه بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا 
ایک منٹ۔۔۔۔تو۔۔۔تو۔۔۔۔۔جی میں شفع الہی کا جملہ شفع نے مکمل کیا۔۔۔۔
یار۔۔۔۔۔۔صفوان شفع کے گلے لگ گیا۔۔۔۔۔۔دونوں چار سال بعد ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے 
اندر آجا۔۔۔۔وه اسے لے کر اندر آیا 
صفوان پاگل رو کیوں رہا ہے تو۔۔۔۔۔شفع نے صفوان کو آنسوں صاف کرتے دیکھا 
یار مجھے معاف کردے۔۔۔۔صفوان الہی کے گلے لگ گیا 
ابے یار ہے دوست ہے تو میرا بھول جا جو ہوا۔۔۔۔۔
تیری بتائیں سچ ثابت ہوگئیں میں پچھتا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔وه نظریں جھکا کر بیٹھا ہوا تھا 
صفوان۔۔کاش تو میری بات سن لیتا۔۔۔۔۔۔
یار میری زندگی میں کاش ہی الفاظ رہے گیا ہے۔۔۔۔۔۔تجھے پتا بھی ہے کیا کیا ہوا ہے ان چار سالوں میں میرے ساتھ۔۔۔۔۔صفوان نے اپنی ساری داستان اسکے آگے رکھ دی 
اور تجھے پتا میں بہت بہت زیادہ تھک گیا ہوں اس زندگی سے اس رب کی امید کی وجہ سے زندہ ہوں۔۔۔۔
صفوان میری بات کا برا مت مانا لیکن تیرا یہ اپنا کیا دہرا ہے۔۔۔۔
برا کیوں مناؤ گا یار یہ مجھے بھی پتا یار تو بتا کیسا ہے۔۔۔۔۔
میں تیرے سامنے ہوں۔۔۔۔شفع نے مسکرا کر جواب دیا 
دونوں کافی دیر تک بتائیں کرتے رہی 
_____________
وقت توہجد کا  تھا فضاء میں ایک خاموشی تھی غافل لوگ سو رہے تھے اور اَللّهُ سے مانگنے والے جھولی پھیلائے مانگ رہے تھے  وہ بھی ان مانگنے والوں میں سے ایک تھا مسجد میں بیٹھا وہ رب کے آگے ہاتھ اٹھائے بڑی شدّت سے مانگ رہا تھا  آنسوں سے چہرہ تر تھا۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے بڑی قیمتی چیز گوا کر واپس مانگنے آے ہو تبھی ایک بوڑھے کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔۔نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک بوڑھا شخص سفید داڑی اور سفید ہی لباس میں چہرے پہ نورانیت لئے کھڑا تھا 
اسکے دیکھنے پہ وہ اسکے ساتھ ہی بیٹھ گئے۔۔۔۔۔ہاں بابا بہت قیمتی چیز گوا چکا ہوں کب  سے مانگ رہا ہوں اپر والا سنتا ہی نہیں ہے کبھی کبھی بہت تھک جاتا ہوں سب چھوڑنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔اسنے ملال سے کہا 
ارے بچے! تو نے دیکھا نہیں جو اس رب کا راستہ چنتا ہے وہ اسے ہی آزماتا ہے اور کیسے ہو سکتا ہے کے کوئی رب کا راستہ چنے اور وہ آزمایا نہ جائے کبھی دیکھا ہے سونا آگ میں جلے بنا کندان بن گیا ہو تپش تو سہنی پڑتی ہے نکھرنے کے لئے انہوں نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ ہلکی سی مسکان  کے ساتھ کہا 
لیکن میں نے اپنے رب کے ساتھ ساتھ اسکے ایک بہت نیک  بندے کو بہت ناراض کیا ہے  لگتا ہے اس نے میری شکایت رب سے  کردی ہے اور اب وہ بندہ کہیں کھو چکا ہے اسنے آنکھوں سے بہتے آنسوں کو اپنی ہتیلی سے صاف کرتے ہوۓ کہا 
بچے اس رب کو راضی کرنا بہت آسان ہے وہ تجھسے بس سچی توبہ چاہتا۔۔۔۔۔۔۔وہ تو رحمن ہے رحیم ہے اسے تو معاف کرنے سب سے زیادہ پسند ہے اور جہاں تک رہی اسکے بندے کی بات تو بیٹا نیک بندے کبھی اپنے رب اسکے بندے کی شکایت نہیں کرتے تو اس رب کو راضی کرلے  وہ خود اس بندے کو تیری جھولی میں ڈال دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔انکا میٹھا لہجہ اور انکی میٹھی باتیں اسکے دل میں اتر رہی تھی۔۔۔۔۔
سچ میں ایسا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے بے یقین سے دیکھتے ہوے کہا 
بلکول میرے بچا اس پہ یقین رکھو بس انہوں نے شہدات کی انگلی آسمان کے جانب کر کے کہا 
اب روز صفوان امام صاحب کے پاس جاتا تھا انکی باتوں سے اسے سکون ملتا تھا نمل تو چلی گئی تھی لیکن اسے سیدھا راستہ دیکھا گئی تھی۔۔۔۔۔۔
صفوان ابھی بھی امام صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔
صفوان تم مجھے اپنے بارے میں بتاؤ ذرا ؟
میں۔۔۔۔میرے بارے میں نہ پوچھیں آپ شرمندہ ہو جائیں گے کے آپکا سٹوڈنٹ کتنا برا ہے۔۔۔۔۔۔شرمندگی کی وجہ سے اسکی نظریں جھک گئیں تھی 
میرے بچے ابھی میں تمہارا استاد نہیں دوست ہوں۔۔۔۔۔بتاؤ 
صفوان نے اپنی زندگی کتاب امام صاحب کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔۔۔۔۔
امام صاحب میں ایک ایسا انسان ہوں جس نے راستے کی رنگنیوں سے متاثر ہو کر منزل کی پروا کی بغیر ان پر چلتا رہا اور جب منزل کی حقیقت مجھ پر واضح ہوئی تو میں نے خود کو اکیلا پایا۔۔۔۔۔۔۔اسکی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہی تھے 
میرے بچے اَللّهُ نے تجھے اپنے پاس بلانے کے لئے اس دل کو توڑا۔۔۔۔انہوں نے اسکے سینے پہ  ہاتھ رکھ کے کہا 
مطلب ؟
مطلب یہ جب اسے کسی کو اپنے پاس بولنا ہوتا ہے یا اسے خود سے قریب کرنا ہوتا ہے نہ تو وه بندے کو تنہا کر دیتا ہے اسکا دل توڑ دیتا ہے تاکہ وه اپنے بندے کو خود سے قریب کر سکے۔۔۔۔۔
امام صاحب کی بتائیں اسکے دل میں اتر رہیں تھی۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments